- 76
- 55
- 19
کوہ قاف اور دنیا
قسط اول (حصہ اول)
جن کی دنیا کا ایک شہر جس کا نام کوہ صباء ہے... وہاں کچھ گہما گہمی چل رہی ہے آئے ایک نظر ادھر دیکھ آتے ہیں...
ایک جھلک سرتاج کی۔۔۔
اگر شہزادی اب یہاں نہیں تو اس تخت پر کون راج کرے گا۔۔۔ (جنوں نے سرِ محفل سب لوگوں کے بیچ یہ بات چیڑھ دی)
آہران: ہم جانتے ہیں کہ شہزادی کوہ صباء سے کہیں غائب ہو گئی ہے اور ہم نے انہیں تلاش کرنے کی بھی بہت کوششیں کی ہے۔۔۔ پر اب تک وہ ہمیں کہیں نہیں ملی۔۔۔ لیکن ہم یوں ہاتھ پے ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔ ہم بہت جلد شہزادی کو تلاش کر لیں گے۔۔۔ اور وہ ہی کوہ صباء کی دیکھ ریکھ کرے گی۔۔۔۔
سرتاج: تو کیا جب تک شہزادی نہیں ملتی کیا کوہ صباء کو ہم یوں ہی چھوڑ دیں۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوہ صباء کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔۔۔ اور شہزادی ابھی اس قابل بھی نہیں کے وہ سہی فیصلے لے سکیں۔۔۔ تو میرا خیال ہے کہ جو اس حکومت کو چلانے کا ہنر رکھتا ہو۔۔۔ اسے ہی تخت نشیں کر دیا جائے۔۔۔
سرتاج کے یہ الفاظ ادا کرتے ہی کوہ صباء میں سرتاج کے نام کی صدائیں بلند ہو گئی۔۔۔ ارہان جو اب تک خاموش تھا بول اٹھا۔۔۔
ارہان: خاموش ہو جائیں۔۔۔ میری بات سنیں۔۔۔ جہاں تک کوہ صباء کے اصولوں کی بات ہے۔۔۔ تو اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب تک تخت نشیں خود ہی اپنی سلطنت کسی کو نہ دے دے تب تک وہ ہی کوہ صباء کا حاکم ہے۔۔۔ اور اگر کسی کو اس کی حکومت چاہئے تو اسے اس حاکم سے مقابلہ کر کے حاکم کو شکست دینی پڑتی ہے۔۔۔
اس لئے جب تک شہزادی خود اپنی سلطنت نہ دے دے تب تک کوئی اسے حاصل نہیں کر سکتا۔۔۔ اور اگر کوئی چاہتا ہے اس سلطنت کو حاصل کرنا۔۔۔ تو اسے شہزادی اور اس کی فوج سے لڑ کے فتح حاصل کرنی ہوگی۔۔۔
ارہان کی بات ختم ہوتے ہی سب ارہان کی عقلمندی کی داد دینے لگتے ہیں۔۔۔
ارہان کی بات سن کر آہران بھی خوش ہو جاتا ہے۔۔۔ اور کہتا ہے۔۔۔
آہران: ارہان کی بات سے میں سہمت ہوں۔۔۔
اور جب تک شہزادی نہیں آ جاتی تب تک یہ حکومت ان کی ہی رہے گی۔۔۔
سرتاج: یہ سن کر ارہان کو غصے بھری نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔۔۔ پر افسوس کے کچھ کر نہیں پاتا۔۔۔
قسط اول (حصہ اول)
جن کی دنیا کا ایک شہر جس کا نام کوہ صباء ہے... وہاں کچھ گہما گہمی چل رہی ہے آئے ایک نظر ادھر دیکھ آتے ہیں...
ایک جھلک سرتاج کی۔۔۔
اگر شہزادی اب یہاں نہیں تو اس تخت پر کون راج کرے گا۔۔۔ (جنوں نے سرِ محفل سب لوگوں کے بیچ یہ بات چیڑھ دی)
آہران: ہم جانتے ہیں کہ شہزادی کوہ صباء سے کہیں غائب ہو گئی ہے اور ہم نے انہیں تلاش کرنے کی بھی بہت کوششیں کی ہے۔۔۔ پر اب تک وہ ہمیں کہیں نہیں ملی۔۔۔ لیکن ہم یوں ہاتھ پے ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔ ہم بہت جلد شہزادی کو تلاش کر لیں گے۔۔۔ اور وہ ہی کوہ صباء کی دیکھ ریکھ کرے گی۔۔۔۔
سرتاج: تو کیا جب تک شہزادی نہیں ملتی کیا کوہ صباء کو ہم یوں ہی چھوڑ دیں۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوہ صباء کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔۔۔ اور شہزادی ابھی اس قابل بھی نہیں کے وہ سہی فیصلے لے سکیں۔۔۔ تو میرا خیال ہے کہ جو اس حکومت کو چلانے کا ہنر رکھتا ہو۔۔۔ اسے ہی تخت نشیں کر دیا جائے۔۔۔
سرتاج کے یہ الفاظ ادا کرتے ہی کوہ صباء میں سرتاج کے نام کی صدائیں بلند ہو گئی۔۔۔ ارہان جو اب تک خاموش تھا بول اٹھا۔۔۔
ارہان: خاموش ہو جائیں۔۔۔ میری بات سنیں۔۔۔ جہاں تک کوہ صباء کے اصولوں کی بات ہے۔۔۔ تو اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب تک تخت نشیں خود ہی اپنی سلطنت کسی کو نہ دے دے تب تک وہ ہی کوہ صباء کا حاکم ہے۔۔۔ اور اگر کسی کو اس کی حکومت چاہئے تو اسے اس حاکم سے مقابلہ کر کے حاکم کو شکست دینی پڑتی ہے۔۔۔
اس لئے جب تک شہزادی خود اپنی سلطنت نہ دے دے تب تک کوئی اسے حاصل نہیں کر سکتا۔۔۔ اور اگر کوئی چاہتا ہے اس سلطنت کو حاصل کرنا۔۔۔ تو اسے شہزادی اور اس کی فوج سے لڑ کے فتح حاصل کرنی ہوگی۔۔۔
ارہان کی بات ختم ہوتے ہی سب ارہان کی عقلمندی کی داد دینے لگتے ہیں۔۔۔
ارہان کی بات سن کر آہران بھی خوش ہو جاتا ہے۔۔۔ اور کہتا ہے۔۔۔
آہران: ارہان کی بات سے میں سہمت ہوں۔۔۔
اور جب تک شہزادی نہیں آ جاتی تب تک یہ حکومت ان کی ہی رہے گی۔۔۔
سرتاج: یہ سن کر ارہان کو غصے بھری نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔۔۔ پر افسوس کے کچھ کر نہیں پاتا۔۔۔